Thursday, August 8, 2019

جب

ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا” 
“کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام 

اسلام جدوجہد، استقلال اور باطل کے سامنے ڈٹ جانے کا نام ہے۔ اسکے تمام عقائد و عبادات معنویت و عقلیت سے معنون ہیں۔ ہر رکن ایمان انفرادی و اجتمائی خیر و بہبود پر منتج ہوتا ہے۔ لیکن واۓ مرورِ ایام! امت نے صرف ظاہری اعمال کو اختیار کیا جبکہ فلسفہ اسلام فراموش کر بیٹھی۔ حج ایسا فقیدالمثال اجتماع ، جب کونے کونے سے عازمین خدا اظہار عبودیت کیلۓحرمین شریفین کا رخ کرتے اور ترانہ وحدیت کی تکرار کرتے ہیں۔ اے اللہ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، تیرے ہی لیۓ تعریفیں ہیں۔ نعمتیں اور بادشاھت تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔
تلبیہ کا مقصد خداۓ واحد کی منشاء و رضا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ تسبیح کا دوسرا جزو کہ نعمتیں اور بادشاھت تیری ہے۔ تو لاشریک ہے۔ کا مقصد باطل لات و منات کا یکسر انکار ہے۔ کہ مومن خانہ خدا میں رب عزوجل کی بادشاہت و جبروت کا اعتراف کرے نیز خوب جان  لے کہ سرفرازی و سربلندی بادشاہِ حقیقی کے قبضہ قدرت میں ہے اور کسی دنیاوی طاغوت سے خوف زدہ نہ ہو۔
یہ تو مقصودِ معبود ہے مگر حقیقت کا اس سے دور کا بھی ربط نہیں ۔ ماسواۓ چند مردان حق کے ہر مسلمان خود کو باطل پادشاہت کی رعیت محسوس  کرتا ہے۔ اور اس کی ترویج و تکمیل کیلۓ دامے، درھمے مصروفِ عمل دکھتا ہے۔
قریباً 20 لاکھ متمول مسلمانان عالم کو اسلام کی برکات نے امسال  اکھٹا کیا ہے، یہ نہایت خوش آئند ہے لیکن وحدت امت کیلۓ ہم نے اپنی زمہ داریوں سے کہاں تک انصاف کیا؟
ایسا اتحاد ہر سال ہوتا ہے لیکن پھر بھی امت پارہ پارہ کیوں ہے؟
خطبہ حج کیوں امت کے مسائل کے حل کا احاطہ نہیں کر پاتا؟ کیوں ہماری دعائیں میزاب رحمت تلے بھی قبولیت سے محروم ہیں ؟
ایسا اسلۓ ہے کہ من حیثیت الملت ہم منافق قوم ہیں ۔
جب ہزاروں مسلمانوں کے قاتل مودی کو پانچ سالہ دور بربریت میں چھ عالمی ایوارڈز ملیں اور ان میں سے چار مسلم ممالک کے اعلیٰ ترین سول اعزازات ہوں (سعودی عرب 2016 شاہ عبدالعزیز ایوارڈ ، متحدہ عرب امارات 2019 شیخ ذائد میڈل ، افغانستان 2014 امیر امان اللہ خاں ایوارڑ ، فلسطین 2018  گرینڈ کلر آف سٹیٹ) تو پھر دعاؤں کی قبولیت کی بجاۓ غضب خداوندی کا امیدوار رہنا چاہیۓ! جب لاکھوں لاکھ ہندو خلیج میں کلیدی عہدوں پہ فائز ہوں، جب UAE کی 27 فیصد آبادی ہندوستانی ہو، جب OIC اجلاس میں شسما سوراج کو خصوصی مہمان کے طور پہ مدعو کیا جاۓ، جب عربی و ایرانی تیل اسرائیلی و ہندوستانی آلات حرب و معیشت میں خون بن کر مسلم لہو کی ارزانی کا باعث ہو، جب انڈیا سے مسلم دنیا کی تجارت  کا حجم 100 بلین $ ڈالر کے لگ بھگ ہو ۔ جب پاکستان کی جانب سے ہندوستان کو مرغوب قوم کا درجہ دیا جاۓ۔ جب افغانستان میں RAW کے درجنوں مراکز سفارت خانوں کے بہروپ میں قائم ہوں ۔ جب باھمی دوستی مالی منفعت اور عالمی سامراج کی خوشنودی کے زیر اثر ہو، جب مسلمان مملکتیں اک دوسرے سے خائف اور غیروں کی حلیف ہوں، جب کلیسہ دوستی و مسجد فروشی عمومی رحجان بن جاۓ، ”جب جہاد کی جگہ جمود لے لے اور حکائت حق پہ غالب ہو “ جب امت اپنی حفاظت کیلۓ زور بازو اور استعانت ِ رحمان پہ تکیے کی بجاۓ  غیر مسلموں کی پناہ طلب کرے۔ جب غیر مسلم افواج بھاری تاوان کے عوض حرمین مقدس کے دفاع کیلۓ بلائی جائیں۔ جب امت کا اقتصادی قبلہ IMF اور World Bank ہو۔ جب زورِ بازو و  استعانت خدا کی بجاۓ UNO کو مشکل کشا سمجھا جاۓ ۔ وہی جس کے بارے میں قومی شاعر تنبیہ کر گۓ تھے کہ یہ کفن چوروں کی انجمن ہے ۔جب سودی نظام کے بنا کارپردازان امت کو انصرام معیشت چلانا محال دکھائی دے۔
        جب کشمیر پہ ہنگامی اسمبلی اجلاس بدستور نفاق و انفراق کی نذر ہو جاۓ۔ جب مملکت خداداد و پاک فوج پہ تنقید شبیہ قائد و پرچم ہلال کے زیر سایہ کی جاۓ، جب سیاسی جماعتیں ہوس اقتدار میں ملت کو گروی رکھنے کیلۓ تیار ہوں، جب لسانی گروہ چند ٹکوں کے عوض دشمن ایجنسیوں کے آلہ کار ہوں، جب لاقانوننیت انتہاؤں کو چھونے لگے،
جب اسلامی معاشرے میں غذا و ادویات بھی خالص میسر نہ ہوں، جب اربوں کرپشن ثابت ہونے پر بھی مجرمان کی حمایت میں کلمہ گو مسلمانوں کے ٹھاٹھیں مارتے جلوس ہوں، جب وزارتی قلمدان سے سفارشی رقعے تحریر کیۓ جائیں، جب بستر مرگ پہ پڑا امیدوار قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہو جاۓ، جب اساس پاکستان دو قومی نظریے پہ تشکیک کے جھکڑ اڑاۓ جائیں، جب اسلام کے نام پہ قائم ہونے والی سلطنت گلوبل ٹرانسپیرنسی انڈیکس میں نچلے درجات میں فائز ہو، جب خودمختاری و خود انحصاری ترجیحات نہ رہیں، جب نفع بخش ادارے سالہا سال خسارے کا شکار رہیں اور ادارے مجرمان کا تعین تک نہ کر سکیں، جب امورِ بیرون مملکت وزیر خارجہ کے بغیر چلاۓ جائیں،
جب ایمان،اتحاد تنظیم کے اصول زریں ڈھونڈے نہ ملیں ۔     جب دشمنوں کے ڈرامے و فلمیں اہل وطن کی پسندیدہ تفریح ہو، جب آئڈیل و میعار بدل جائیں، جب منبر و خانقاہ جہد و سوز سے عاری ہوں، جب شعائر اسلام و پاکستان نشانہ تضحیک ہوں،
جب درسگاہیں جہالت اور تقلید کی ترویج پہ کمر کسے ہوں ، جب بچیاں دانشوران قوم کی دست درازیوں سے مامون نہ ہوں،
 پھر آسمان سے ابابیلیں اعانت کیلۓ نہیں آتیں صرف آفات سماوی و تحقیر دنیاوی کے پتھر برستے ہیں۔ پھر دعائیں بلعم باعورا کی مانند منہ پہ ماری جاتی ہیں، دشمنوں کی دھاک بٹھا دی جاتی ہے، اور ارب سے زائد مسلم آبادی محض خس و خاشاک کا ڈھیر ہوتی ہے جن سے کشمیر ، فلسطین، شام ، عراق ، افغانستان،یمن ، لیبیا میں اجتماعی قربانیاں لی جاتی ہیں۔
حضرت اقبال رحمۃاللہ نے مرشد رومی سے پوچھا کہ امتوں کی موت کی کیا وجہ ہے؟
ترجمان حقیقت نے جواب دیا
 ” بے معنی شۓ اور غلط کاریوں کو حقیقت سے تعبیر کرنے والی قوم کبھی زندہ نہیں رہ سکتی اور یکلخت موت ان کا مقدر ہے “


جب

ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا”  “کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام  اسلام جدوجہد، استقلال اور باطل کے سامنے ڈٹ جانے کا نام ...